اب راستے پہ کوئی رکاوٹ نہیں ترے
بہتان کی چٹان کو میں نے ہٹا دیا
فکروں کو چیرتے ہوئے تیرے خیال نے
ٹوٹے ہوئے بدن میں نیا دل لگا دیا
محفل میں مصلحت سے جو باتیں نہ کر سکا
دانشوروں نے اس کو نشانہ بنا دیا
کوچے میں یار لوگوں کا جب بڑھ گیا ہجوم
اس نے بھی احتیاط کا پردہ گرا دیا
چاندی سے پاؤں چھوڑ گئے گنگناتے نقش
پگ پگ پہ جیسے دیپ کسی نے جلا دیا
غزل
اب راستے پہ کوئی رکاوٹ نہیں ترے (ردیف .. ا)
محمود عشقی