اب پسر آئے ہیں رشتوں پہ کوہاسے کتنے
اب جو غربت میں ہے نانی تو نواسے کتنے
چوٹ کھائے ہوئے لمحوں کا ستم ہے کہ اسے
روح کے چہرے پہ دکھتے ہیں مہانسے کتنے
سچ کے قصبے پہ میاں جھوٹ کی سرداری ہے
اب اٹکتے ہیں لبوں پر ہی خلاصے کتنے
تھے بہت خاص جو سر تان کے چلتے تھے یہاں
اب اسی شہر میں واقف ہیں انا سے کتنے
اب بھی اندر مرے دل ہے جو دھڑکتا ہے میاں
ورنہ بازار میں بکتے ہیں دلاسے کتنے
موسلا دھار برستی مری آنکھیں سب چپ
اس کی آنکھوں میں نمی ہے تو ہیں پیاسے کتنے
غزل
اب پسر آئے ہیں رشتوں پہ کوہاسے کتنے
نونیت شرما