اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے
یہ تپتے ہوئے ہونٹوں کو تکنے کی سزا ہے
آشوب جہاں گزراں نے یہ کیا ہے
اس دور کا ہر فرد و بشر آبلہ پا ہے
اے شبنم گریاں تجھے اس کا بھی پتا ہے
کلیوں کا تبسم بھی بہت درد نما ہے
ہر اہل ہوس زینت خلوت کدۂ ناز
ہر اہل وفا آج سر دار کھڑا ہے
اک نور مجسم کے پرستار ہیں اخترؔ
ہم کہہ نہیں سکتے ہیں وہ بت ہے کہ خدا ہے
غزل
اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے
وکیل اختر