EN हिंदी
اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے | شیح شیری
ab nind kahan aaankhon mein shoala sa bhara hai

غزل

اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے

وکیل اختر

;

اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے
یہ تپتے ہوئے ہونٹوں کو تکنے کی سزا ہے

آشوب جہاں گزراں نے یہ کیا ہے
اس دور کا ہر فرد و بشر آبلہ پا ہے

اے شبنم گریاں تجھے اس کا بھی پتا ہے
کلیوں کا تبسم بھی بہت درد نما ہے

ہر اہل ہوس زینت خلوت کدۂ ناز
ہر اہل وفا آج سر دار کھڑا ہے

اک نور مجسم کے پرستار ہیں اخترؔ
ہم کہہ نہیں سکتے ہیں وہ بت ہے کہ خدا ہے