اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے
کھل چکی ہیں اس کے گھر کی کھڑکیاں میرے لیے
رخ مری جانب رہے گا بے رخی جیسی بھی ہے
چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں
بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے
اجنبی شہروں میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں جس طرح
اک گلی ہر شہر میں تیری گلی جیسی بھی ہے
آج کے دکھ ہی بہت ہیں بیم فردا کس لیے
کٹ ہی جائے گی اذیت کی گھڑی جیسی بھی ہے
دھندلا دھندلا ہی سہی رستہ دکھائی تو دیا
آج کا دن ہے غنیمت روشنی جیسی بھی ہے
جھولتی ہے میرے دل میں ایک شاخ اس پیڑ کی
وہ تر و تازہ ہے یا سوکھی ہوئی جیسی بھی ہے
میں نے دیکھا ہے فلک کو جاگتے سوتے ہوئے
میری آنکھوں تک تو آئی چاندنی جیسی بھی ہے
اب کہاں لے جائیں سانسوں کی سلگتی آگ کو
زندگی ہے زندگی اچھی بری جیسی بھی ہے
کوئی موسم ہو مری خوشبو رہے اس پھول میں
داستاں میری کہی یا ان کہی جیسی بھی ہے
اپنا حق شہزادؔ ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں
رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے
غزل
اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
شہزاد احمد