اب نہیں کوئی ٹھکانا اپنا
دوست ہے تو نہ زمانہ اپنا
چاہتیں ہیں نہ وہ یادیں باقی
لٹ گیا ہائے خزانہ اپنا
اپنا ہمدرد نہ مونس کوئی
آج دشمن ہے زمانہ اپنا
تھی کبھی شہر میں اس کی شہرت
سب سے اونچا تھا گھرانا اپنا
روٹھنا ہم سے وہ اس کا پل پل
ہر گھڑی اس کو منانا اپنا
پھر ہوئی اس کی تمنا پیدا
پھر کہا دل نے نہ مانا اپنا
شاعری نے کیا رسوا خسروؔ
ہو گیا عام فسانہ اپنا
غزل
اب نہیں کوئی ٹھکانا اپنا
فیروز خسرو