EN हिंदी
اب نہیں کوئی جبیں ماہ درخشاں کی طرح | شیح شیری
ab nahin koi jabin mah-e-daraKHshan ki tarah

غزل

اب نہیں کوئی جبیں ماہ درخشاں کی طرح

محمود الحسن

;

اب نہیں کوئی جبیں ماہ درخشاں کی طرح
اب کوئی آنکھ نہیں چشم غزالاں کی طرح

اب کہیں بھی نظر آتے نہیں عارض کے گلاب
اب کوئی زلف کہاں سنبل و ریحاں کی طرح

اس بھرے شہر میں اب کوئی زلیخا ہی نہیں
ایک چہرہ بھی نہیں صورت جاناں کی طرح

کیجئے بھی تو کہاں اس رخ زیبا کی تلاش
کوئی کوچہ ہی نہیں کوئے نگاراں کی طرح

زندگی بن گئی اک سوز دروں تیرے بغیر
کاٹے کٹتی ہی نہیں ہے شب ہجراں کی طرح

لے کے آئی تری یادوں کے مہکتے ہوئے پھول
کوئی موسم ہی نہیں فصل بہاراں کی طرح

جان جاں میری وفاؤں کا صلہ دو کہ نہ دو
کون چاہے گا تمہیں اس دل ناداں کی طرح