EN हिंदी
اب نہ وہ شاخ ہے نہ پتھر ہے | شیح شیری
ab na wo shaKH hai na patthar hai

غزل

اب نہ وہ شاخ ہے نہ پتھر ہے

مدحت الاختر

;

اب نہ وہ شاخ ہے نہ پتھر ہے
کب سے جنگل میں کوئی بے گھر ہے

کوئی سایہ نظر نہیں آتا
جب سے آنکھوں میں ایک پیکر ہے

ہاں کبھی گھومتی رہی ہوگی
اب زمیں بے نیاز محور ہے

زہر پینے کوئی نہیں آتا
کتنا بے تاب یہ سمندر ہے

روٹھ کر چل دیے نئے راہی
سر جھکائے کھڑا صنوبر ہے

مڑ کے دیکھو تو سنگ ہو جاؤ
اور آگے بڑھو سمندر ہے

اپنا شیشہ لیے کہاں جاؤں
شہر کا شہر سارا پتھر ہے