اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آئے ہیں مے خانے سے
کیا کریں جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ اٹھ جائیے مے خانے سے
پھونک کر ہم نے ہر اک گام پہ رکھا ہے قدم
آسماں پھر بھی نہ باز آیا ستم ڈھانے سے
ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے
ارے او وعدہ فراموش پہاڑ ایسی رات
کیا کہوں کیسے کٹی تیرے نہیں آنے سے
یاد رکھ! وقت کے انداز نہیں بدلیں گے
ارے اللہ کے بندے ترے گھبرانے سے
سر چڑھائیں کبھی آنکھوں سے لگائیں ساقی
تیرے ہاتھوں کی چھلک جائے جو پیمانے سے
خالی رکھی ہوئی بوتل یہ پتا دیتی ہے
کہ ابھی اٹھ کے گیا ہے کوئی مے خانے سے
آئے گی حشر کی ناصح کی سمجھ میں کیا خاک
جب سمجھ دار سمجھتے نہیں سمجھانے سے
برق کے ڈر سے کلیجے سے لگائے ہوئے ہے
چار تنکے جو اٹھا لائی ہے ویرانے سے
دل ذرا بھی نہ پسیجا بت کافر تیرا
کعبہ اللہ کا گھر بن گیا بت خانے سے
شمع بیچاری جو اک مونس تنہائی تھی
بجھ گئی وہ بھی سر شام ہوا آنے سے
غیر کاہے کو سنیں گے ترا دکھڑا بسملؔ
ان کو فرصت کہاں ہے اپنی غزل گانے سے
غزل
اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے
بسملؔ عظیم آبادی