اب مرا درد نہ تیرا جادو
مرگ انبوہ میں کیا میں کیا تو
کوئی آواز نہ کوئی لرزش
از افق تا بہ افق عالم ہو
حلقہ دود بپا موج صبا
بجھ گئی سینۂ گل میں خوشبو
برگ نو رستہ ہیں دست مجذوم
زہر شاخوں میں بنی موج نمو
راکھ کا ڈھیر ہیں وہ لوگ جو تھے
گل بدن غنچہ دہن غالیہ مو
وقت کا مے کدہ تصویر سکوت
سنگ بے ضرب تب آزردہ سبو
طے ہوا مرحلۂ بیم و رجا
نیست ہی نیست ہے یاہو یاہو
غزل
اب مرا درد نہ تیرا جادو
حمید نسیم