EN हिंदी
اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال | شیح شیری
ab maut se bachae kahan zist kya majal

غزل

اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال

سرشار بلند شہری

;

اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال
پھیلے ہوئے ہیں جسم میں نیلی رگوں کے جال

یوں تو نہیں کہ عمر گنوائی ہے دھوپ میں
پھبتی سی کس رہے ہیں یہ سر کے سفید بال

مہلت کسے ملے ہے یہاں لب کشائی کی
آنکھوں میں ناچ ناچ کے تھکتے رہے سوال

ملبوس تو بدن سے کبھی کا اتر چکا
تب لطف آئے جسم سے کھنچ جائے اور کھال

سرشارؔ آؤ دیکھیں تو یہ کون شخص ہے
اک ہاتھ میں کتاب ہے اک ہاتھ میں کدال