EN हिंदी
اب مسافت میں تو آرام نہیں آ سکتا | شیح شیری
ab masafat mein to aaram nahin aa sakta

غزل

اب مسافت میں تو آرام نہیں آ سکتا

ادریس بابر

;

اب مسافت میں تو آرام نہیں آ سکتا
یہ ستارہ بھی مرے کام نہیں آ سکتا

یہ مری سلطنت خواب ہے آباد رہو
اس کے اندر کوئی بہرام نہیں آ سکتا

جانے کھلتے ہوئے پھولوں کو خبر ہے کہ نہیں
باغ میں کوئی سیہ فام نہیں آ سکتا

ہر ہوا خواہ یہ کہتا تھا کہ محفوظ ہوں میں
بجھنے والوں میں مرا نام نہیں آ سکتا

میں جنہیں یاد ہوں اب تک یہی کہتے ہوں گے
شاہزادہ کبھی ناکام نہیں آ سکتا

ڈر ہی لگتا ہے کہ رستے میں نہ رہ جاؤں کہیں
کہلوا دیجئے میں شام نہیں آ سکتا