اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا
اس نے تو مجھ کو خاک میں ملنے نہیں دیا
کوشش ہوا نے رات بھر اپنی سی کی مگر
زنجیر در کو میں نے ہی ہلنے نہیں دیا
اک بار اس سے بات تو میں کر کے دیکھ لوں
اتنا بھی آسرا مجھے دل نے نہیں دیا
کرتا وہ اپنے آپ کو کیا مجھ پہ منکشف
اس نے تو مجھ سے بھی مجھے ملنے نہیں دیا
قائم نہیں رہا فقط اپنی ہی بات پر
اپنی جگہ سے مجھ کو بھی ملنے نہیں دیا
آخر کوئی ثبوت تو ہو بے گناہی کا
دامن کو اس خیال نے سلنے نہیں دیا
راشدؔ ہوا سے مانگ کے کیوں شرمسار ہو
جو تم کو آب و آتش و گل نے نہیں دیا
غزل
اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا
راشد مفتی