EN हिंदी
اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا | شیح شیری
ab kya gila ki ruh ko khilne nahin diya

غزل

اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا

راشد مفتی

;

اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا
اس نے تو مجھ کو خاک میں ملنے نہیں دیا

کوشش ہوا نے رات بھر اپنی سی کی مگر
زنجیر در کو میں نے ہی ہلنے نہیں دیا

اک بار اس سے بات تو میں کر کے دیکھ لوں
اتنا بھی آسرا مجھے دل نے نہیں دیا

کرتا وہ اپنے آپ کو کیا مجھ پہ منکشف
اس نے تو مجھ سے بھی مجھے ملنے نہیں دیا

قائم نہیں رہا فقط اپنی ہی بات پر
اپنی جگہ سے مجھ کو بھی ملنے نہیں دیا

آخر کوئی ثبوت تو ہو بے گناہی کا
دامن کو اس خیال نے سلنے نہیں دیا

راشدؔ ہوا سے مانگ کے کیوں شرمسار ہو
جو تم کو آب و آتش و گل نے نہیں دیا