اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا
ہم غوطہ زن ہوئے تو سمندر میں کچھ نہ تھا
دیوانہ کر گئی تری تصویر کی کشش
چوما جو پاس جا کے تو پیکر میں کچھ نہ تھا
اپنے لہو کی آگ ہمیں چاٹتی رہی
اپنے بدن کا زہر تھا ساغر میں کچھ نہ تھا
دیکھا تو سب ہی لعل و جواہر لگے مجھے
پرکھا جو دوستوں کو تو اکثر میں کچھ نہ تھا
سب رنگ سیل تیرگیٔ شب سے ڈھل گئے
سب روشنی کے عکس تھے منظر میں کچھ نہ تھا

غزل
اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا
سیف زلفی