اب کیا بتاؤں شہر یہ کیسا لگا مجھے
ہر شخص اپنے خون کا پیاسا لگا مجھے
خفگی ہو یا جفائیں ہوں یا مہربانیاں
ہر رنگ چشم ناز کا اچھا لگا مجھے
دیکھا جو غور سے تو وہ جھونکا ہوا کا تھا
تم خود ہی چھم سے آئی ہو ایسا لگا مجھے
وہ شخص جس سے پہلے کبھی آشنا نہ تھا
نزدیک سے جو دیکھا تو اپنا لگا مجھے
یوں بھی ملے گی منزل جاناں یقیں نہ تھا
وہ سامنے تھے پھر بھی اک سپنا لگا مجھے
غزل
اب کیا بتاؤں شہر یہ کیسا لگا مجھے
فردوس گیاوی