اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم
خود کو سمیٹتے ہیں یہاں سے وہاں سے ہم
کیا جانے کس جہاں میں ملے گا ہمیں سکون
ناراض ہیں زمیں سے خفا آسماں سے ہم
اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس
لینے لگے ہیں کام یقیں کا گماں سے ہم
لیکن ہماری آنکھوں نے کچھ اور کہہ دیا
کچھ اور کہتے رہ گئے اپنی زباں سے ہم
آئینے سے الجھتا ہے جب بھی ہمارا عکس
ہٹ جاتے ہیں بچا کے نظر درمیاں سے ہم
ملتے نہیں ہیں اپنی کہانی میں ہم کہیں
غائب ہوئے ہیں جب سے تری داستاں سے ہم
غم بک رہے تھے میلے میں خوشیوں کے نام پر
مایوس ہو کے لوٹے ہیں ہر اک دکاں سے ہم
غزل
اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم
راجیش ریڈی