اب کوئی غم گسار ہمارا نہیں رہا
دنیا کو اعتبار ہمارا نہیں رہا
اس فرط غم میں خون کے آنسو ٹپک پڑے
اب دل بھی رازدار ہمارا نہیں رہا
اس کی حضور پیر مغاں میں ہے منزلت
جو عہد پائیدار ہمارا نہیں رہا
ہر داغ ابھر کے زخم بنا زخم رشک گل
دل مائل بہار ہمارا نہیں رہا
یہ ہے مآل صحبت زاہد جناب دل
رندوں میں اب شمار ہمارا نہیں رہا
غزل
اب کوئی غم گسار ہمارا نہیں رہا
دل شاہجہاں پوری