اب کسی شاخ پہ ہلتا نہیں پتہ کوئی
دشت سے عمر ہوئی گزرا نہ جھونکا کوئی
لب پہ فریاد نہ ہے آنکھ میں قطرہ کوئی
وادئ شب میں نہیں ہم سفر اپنا کوئی
خندۂ موج مری تشنہ لبی نے جانا
ریت کا تپتا ہوا دیکھ کے ذرہ کوئی
جادۂ شوق پہ کل لوگ تھے آتے جاتے
اب شریفؔ اس پہ مسافر نہیں ملتا کوئی
غزل
اب کسی شاخ پہ ہلتا نہیں پتہ کوئی
شریف کنجاہی