اب کسی کو کیا بتائیں کس قدر نادان تھے
ہم وہیں کشتی کو لے آئے جہاں طوفان تھے
کچھ تڑپتی آرزوئیں چند بے معنی سوال
کارواں میں سب کے سر پر بس یہی سامان تھے
ہم نے اس دنیا کے مے خانہ میں یے دیکھا فریب
بس وہی پیاسے رہے جو صاحب ایمان تھے
زلزلوں پر آ گیا الزام اچھا ہی ہوا
ورنہ اس تخریب کے پہلے سے بھی امکان تھے
ان غموں نے دل میں صدیوں کے وسیلے کر لئے
جو فقط دو چار دن کے واسطے مہمان تھے
بس یہی سچ ہے کہ ہم اب ان کی محکومی میں ہیں
جو نفسؔ اپنی حویلی میں کبھی دربان تھے
غزل
اب کسی کو کیا بتائیں کس قدر نادان تھے
نفس انبالوی