EN हिंदी
اب کسے یارا ہے ضبط نالہ و فریاد کا | شیح شیری
ab kise yara hai zabt-e-nala-o-faryaad ka

غزل

اب کسے یارا ہے ضبط نالہ و فریاد کا

شعلہ کراروی

;

اب کسے یارا ہے ضبط نالہ و فریاد کا
بھر گیا ہے غم سے پیمانہ دل ناشاد کا

جل رہا تھا آشیانہ بس نہ تھا کرتے ہی کیا
دور سے دیکھا کئے ہم یہ ستم صیاد کا

قلب سوزاں مٹ کے بھی ہنگامہ آرا ہی رہا
بن گیا بجلی ہر اک ذرہ دل ناشاد کا

موسم گل کی ہوا آئی نہ جس کو ساز وار
دل ہے وہ پژمردہ غنچہ عالم ایجاد کا

یا تو اب آٹھوں پہر پیش نظر ہو یا کبھی
دل دہل جاتا تھا سن کر نام بھی صیاد کا

آیا قسمت سے اسی دن مجھ کو پیغام اجل
روز آخر تھا جو میری قید کی میعاد کا

دیکھ عبرت کی نظر سے غم کے داغوں کی بہار
صفائے دل ہے مرقع گلشن ایجاد کا

دیکھیے ہوتا ہے کیوں کر آج طے یہ مرحلہ
میں ادھر ہوں سخت جاں خنجر ادھر فولاد کا

صحن‌ گلشن سے قفس میں آ گیا وہ مشت پر
ہو گیا گلزار جس کے دم سے گھر صیاد کا

سنگ دل روتے ہیں شعلہؔ سن کے فریادیں مری
موم ہو جاتا ہے آہوں سے جگر فولاد کا