اب خیالوں کا جہاں اور نہ آباد کریں
خواب جو بھول چکے ہیں انہیں بس یاد کریں
تھپکی دے دے کے سلانے کی ہے عادت دل کو
اب کسی اور سے کیوں خود ہی سے فریاد کریں
کتنے موسم کے چھلاوے سے گزر کر پہنچی
اس ڈگر پہ کہ جہاں لوگ مجھے یاد کریں
ہم بھی اب فکر جہاں چھوڑ کے جی بھر ہنس لیں
وقت اتنا بھی کہاں ہے جسے برباد کریں
زندگی یوں ہی منظم رہے ایسا بھی نہیں
ہم نئی طرز کوئی اور بھی ایجاد کریں
دینے والے کی مشیت تھی جو وحشت دے دی
دل ویراں جو ملا ہے اسے آباد کریں
دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو نہ جوڑیں شاہینؔ
دل پہ جو گزری اسے بھول کے مت یاد کریں

غزل
اب خیالوں کا جہاں اور نہ آباد کریں
سلمیٰ شاہین