EN हिंदी
اب خانہ بدوشوں کا پتہ ہے نہ خبر ہے | شیح شیری
ab KHana-ba-doshon ka pata hai na KHabar hai

غزل

اب خانہ بدوشوں کا پتہ ہے نہ خبر ہے

تسلیم الہی زلفی

;

اب خانہ بدوشوں کا پتہ ہے نہ خبر ہے
کوئی ہے نظر بند کوئی شہر بدر ہے

پھر فصل بہار آئی پرندے نہیں آئے
ویران ابھی تک مرے آنگن کا شجر ہے

قامت ہی میسر ہے اسے اور نہ چہرہ
یہ کون سی مخلوق ہے کیسا یہ نگر ہے

میں دھوپ اٹھائے ہوئے چپ چاپ کھڑا ہوں
اس دشت میں ہستی مری مانند شجر ہے

پھر دیکھنا یہ عمر بھی بڑھ جائے گی کچھ روز
اس شخص کے لوٹ آنے کا امکان اگر ہے

جو شہر تھا وہ قریۂ ویران ہے زلفیؔ
جو گھر تھا کسی دور میں اب راہ گزر ہے