EN हिंदी
اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر | شیح شیری
ab KHak to kiya hai dil ko jala jala kar

غزل

اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر

جرأت قلندر بخش

;

اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر
کرتے ہو اتنی باتیں کیوں تم بنا بنا کر

عاشق کے گھر کی تم نے بنیاد کو بٹھایا
غیروں کو پاس اپنے ہر دم بٹھا بٹھا کر

یہ بھی کوئی ستم ہے یہ بھی کوئی کرم ہے
غیروں پہ لطف کرنا ہم کو دکھا دکھا کر

اے بت نہ مجھ کو ہرگز کوچے سے اب اٹھانا
آیا ہوں یاں تلک میں ظالم خدا خدا کر

دیتا ہوں میں ادھر جی اپنا تڑپ تڑپ کر
دیکھے ہے وہ ادھر کو آنکھیں چرا چرا کر

کوئی آشنا نہیں ہے ایسا کہ با وفا ہو
کہتے ہو تم یہ باتیں ہم کو سنا سنا کر

جلتا تھا سینہ میرا اے شمع تس پہ تو نے
دونی لگائی آتش آنسو بہا بہا کر

اک ہی نگاہ کر کر سینے سے لے گیا وہ
ہر چند دل کو رکھا ہم نے چھپا چھپا کر

جرأت نے آخر اپنے جی کو بھی اب گنوایا
ان بے مروتوں سے دل کو لگا لگا کر