EN हिंदी
اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی | شیح شیری
ab ke sahra mein ajab barish ki arzani hui

غزل

اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی

عرفانؔ صدیقی

;

اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی
فصل امکاں کو نمو کرنے میں آسانی ہوئی

پیاس نے آب رواں کو کر دیا موج سراب
یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی

سر سے سارے خوان خوشبو کے بکھر کر رہ گئے
خاک خیمہ تک ہوا پہنچی تو دیوانی ہوئی

دور تک اڑنے لگی گرد صدا زنجیر کی
کس قدر دیوار زنداں کو پشیمانی ہوئی

تم ہی صدیوں سے یہ نہریں بند کرتے آئے ہو
مجھ کو لگتی ہے تمہاری شکل پہچانی ہوئی