اب کے جو یہاں سے جائیں گے ہم
پھر تجھ کو نہ منہ دکھائیں گے ہم
مشکل ہے نہ آنا تجھ گلی میں
پر یہ بھی سہی نہ آئیں گے ہم
جو آگے کہا کئے ہیں تجھ سے
سو اب کے وہ کر دکھائیں گے ہم
ایسا ہی جو دل نہ رہ سکے گا
ٹک دور سے دیکھ جائیں گے ہم
ہاں کیوں نہ ملیں گے تجھ سے ظالم
جب گالییں نت کی کھائیں گے ہم
آزردہ ہو غیر سے لڑو یاں
اس عہدے سے کب بر آئیں گے ہم
جینے ہی سے ہاتھ اٹھائیں گے لیک
باتیں نہ تری اٹھائیں گے ہم
گر زیست ہے تجھ تلک تو پھر کیا
صدقے ترے مر ہی جائیں گے ہم
اب کوچہ میں تیرے ہی پیارے
کسی اور سے جی لگائیں گے ہم
جوں چاہئے چاہ کا سرشتہ
جیتے ہیں تو کر دکھائیں گے ہم
اس پر بھی اگر ملیں گے خیر
قائمؔ ہی نہ پھر کہائیں گے ہم
غزل
اب کے جو یہاں سے جائیں گے ہم
قائم چاندپوری