اب جنوں کے رت جگے خرد میں آ گئے
سارے خواب روشنی کی زد میں آ گئے
لوگ پا گئے حقیقتیں قیاس میں
ہم یقین سے گماں کی حد میں آ گئے
علم کے مراقبے ہیں غیر مستند
جہل کے مناظرے سند میں آ گئے
لفظ فتح کے جو ترجمان تھے کبھی
کیوں سمٹ کے حرف المدد میں آ گئے
اک پناہ کیا ملی کہ حسن و عشق کے
سب گناہ نیکیوں کی مد میں آ گئے
دل کی تہہ میں عازمؔ ان کی یاد رہ گئی
غم ابھر کے میرے خال و خد میں آ گئے
غزل
اب جنوں کے رت جگے خرد میں آ گئے
عین الدین عازم