اب جو اٹھیں گے تو کاندھوں پہ اٹھانا ہوگا
بستر خاک پہ پھر ہم کو سلانا ہوگا
ہم سے اجڑے ہوئے لوگوں سے بھی مل کر دیکھو
درمیاں کوئی تو اک ربط پرانا ہوگا
آخری دھوپ ہیں آنکھوں میں بسا لو ورنہ
پھر کہاں خواب کسی شب کا سہانا ہوگا
جب ہو اثبات ہی خود اپنی نفی کا باعث
دل کو ہر قید تمنا سے چھڑانا ہوگا
تیری دنیا کی اذیت تو اٹھا لی یا رب
بوجھ عقبیٰ کا بھی کیا یوں ہی اٹھانا ہوگا
غزل
اب جو اٹھیں گے تو کاندھوں پہ اٹھانا ہوگا
رفعت شمیم