EN हिंदी
اب جو سویا تو یہ کروں گا میں | شیح شیری
ab jo soya to ye karunga main

غزل

اب جو سویا تو یہ کروں گا میں

مسلم سلیم

;

اب جو سویا تو یہ کروں گا میں
خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں

بزم میں سچ بھی میں نے بولا ہے
زہر کا جام بھی پیوں گا میں

اے مجھے موت دینے والے سن
تو ہی مر جائے گا جیوں گا میں

یہ مرے دوست کی نشانی ہے
چاک دامن بھلا سیوں گا میں

مجھ پہ بس میری حکمرانی ہے
یوں جیا ہوں یونہی جیوں گا میں