EN हिंदी
اب جو ہم زیست میں بیزار نظر آتے ہیں | شیح شیری
ab jo hum zist mein bezar nazar aate hain

غزل

اب جو ہم زیست میں بیزار نظر آتے ہیں

جتیندر موہن سنہا رہبر

;

اب جو ہم زیست میں بیزار نظر آتے ہیں
ہر طرف اپنے خریدار نظر آتے ہیں

وہ ہمیں مخزن اسرار نظر آتے ہیں
ہم انہیں عاشق بیزار نظر آتے ہیں

ہم کو مے خوار ہی مے خوار نظر آتے ہیں
سب مئے عشق سے سرشار نظر آتے ہیں

بد ظنی ظلم و ستم ہجو صنم رسوائی
عشق میں تو بڑے آزار نظر آتے ہیں

سب کا دل لیتے ہیں اور اپنا نہیں دیتے ہیں
آپ ہم کو بڑے ہشیار نظر آتے ہیں

ختم مجھ پر ہی نہیں عشق مسیحا میرے
مجھ کو تو آپ بھی بیمار نظر آتے ہیں

اب جو رسوائی پہ میری انہیں درد آیا ہے
باریابی کے کچھ آثار نظر آتے ہیں

دشت پیمائی سے جب آبلہ پا سوتا ہوں
خواب میں آپ گہر بار نظر آتے ہیں

ایک وہ ہیں کہ زمانے میں ہے شہرہ جن کا
ایک ہم ملک پہ جو بار نظر آتے ہیں

کوڑے کرکٹ کا ملے گا نہ ولایت میں نشاں
ہند میں ہر طرف انبار نظر آتے ہیں

کس سے شکوہ کروں رہبرؔ کہ سبھی اب تو مجھے
میرے دلبر کے طلب گار نظر آتے ہیں