اب جو دیکھا تو داستان سے دور
اٹھ رہا تھا دھواں چٹان سے دور
دیکھنا کیا مکان کی جانب
اب یہاں بیٹھ کر مکان سے دور
ہجر کس آنکھ کا ستارہ ہے
رقص کرتا ہے آسمان سے دور
زندگی کا کوئی ہدف تو بنا
دل کوئی صید کر کمان سے دور
جانتا ہوں زمین کس کی ہے
بیٹھ جاتا ہوں سائبان سے دور
دل وہ آتش کدہ کہ روشن ہے
شہر شیراز و شیروان سے دور
لڑ رہا ہوں رساؔ قبیلہ وار
میرؔ و مرزاؔ کے خاندان سے دور
غزل
اب جو دیکھا تو داستان سے دور
رسا چغتائی