اب جا کر احساس ہوا ہے پیار بھی کرنا تھا
پیار جو کرنا تھا اس کا اظہار بھی کرنا تھا
اول اول کشتیٔ جاں غرقاب بھی ہونا تھی
آخر آخر سانسوں کو پتوار بھی کرنا تھا
سب کچھ پانا بھی تھا ہم کو سب کچھ کھونا بھی
جیت بھی جانا تھا پھر جیت کو ہار بھی کرنا تھا
صحراؤں کی خاک اڑاتے اندھے رستوں سے
دریا تک بھی آنا دریا پار بھی کرنا تھا
اک اجڑا ویران سا منظر دیکھ کے باہر کا
اپنے ہاتھوں ہر در کو دیوار بھی کرنا تھا
نرم ملائم چہرے گہری نیلی آنکھوں والے
تجھ جیسے بے مہر کو اپنا یار بھی کرنا تھا

غزل
اب جا کر احساس ہوا ہے پیار بھی کرنا تھا
شفیق سلیمی