اب اتنی ارزاں نہیں بہاریں وہ عالم رنگ و بو کہاں ہے
قفس میں بیٹھے رہو اسیرو ابھی نشیمن بہت گراں ہے
گزر رہا ہے جو دل پہ عالم عیاں نہ ہونے پہ بھی عیاں ہے
ابھی فقط قصد ہے فغاں کا ابھی سے چہرہ دھواں دھواں ہے
کہیں قیامت نہ اٹھ کھڑی ہو زمین ملتی ہے آسماں سے
بڑی نزاکت کی یہ گھڑی ہے مری جبیں ان کا آستاں ہے
یہ خشک لب یہ اداس چہرہ یہ مضمحل مضمحل سے آنسو
یہی فسانہ یہی حقیقت یہی خموشی یہی زباں ہے
یہ سب ہے نیرنگ آب و دانہ کہاں ہوں میں آہ کیا بتاؤں
یہی ہیں بس میرے دو ٹھکانے قفس نہیں ہے تو آشیاں ہے
چراغ ہیں آسماں کے ٹھنڈے وہ بجلیاں سرد پڑ گئیں سب
نہ اب وہ طوفان رنگ و بو ہے نہ اب چمن ہے نہ آشیاں ہے
دھواں چھٹا شعلے رقص میں ہیں نظر اٹھا دیکھ روشنی میں
یہ تجھ کو کیا ہو گیا ہے ہمدم ترا نہیں میرا آشیاں ہے
عروج پر ہے مرا مقدر کہ طشت از بام ہے اسیری
زمانے کا انقلاب دیکھو قفس کے سائے میں آشیاں ہے
وہی غریبوں کا بھی خدا ہے بہت ہے جینے کو یہ سہارا
سراجؔ اس دور سے گزرنا مگر بڑا سخت امتحاں ہے
غزل
اب اتنی ارزاں نہیں بہاریں وہ عالم رنگ و بو کہاں ہے
سراج لکھنوی