اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں
شہر بھی اجنبی نہیں لوگ بھی اجنبی نہیں
ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأت عرض کی نہیں
شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں
یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہم سفر
راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں
پرسش حال کے سوا کوئی کرے بھی کیا مگر
پرسش حال دوستو طنز ہے دوستی نہیں
بیتے ہوئے خوشی کے دن بھولی ہوئی کہانیاں
آپ کو یاد ہوں تو ہوں ہم کو تو یاد بھی نہیں
غزل
اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں
اقبال عظیم