EN हिंदी
اب اس طرح ستم روزگار ہوتا ہے | شیح شیری
ab is tarah sitam-e-rozgar hota hai

غزل

اب اس طرح ستم روزگار ہوتا ہے

ماہر القادری

;

اب اس طرح ستم روزگار ہوتا ہے
قفس کے سامنے ذکر بہار ہوتا ہے

خدا کے واسطے دامن کا چاک سینے دو
کبھی کبھی تو جنوں ہوشیار ہوتا ہے

وفا کا ذکر ہی کیوں چھیڑتے ہیں اہل وفا
جب ان کی خاطر نازک پہ بار ہوتا ہے

وہ سامنے ہوں تو آنسو نکل ہی جاتے ہیں
یہ جرم وہ ہے جو بے اختیار ہوتا ہے

میں مطمئن ہوں اگرچہ خراب ہے ماحول
خزاں کے بعد کا عالم بہار ہوتا ہے