EN हिंदी
اب اس سے کیا تمہیں تھا یا امیدوار نہ تھا | شیح شیری
ab is se kya tumhein tha ya umid-war na tha

غزل

اب اس سے کیا تمہیں تھا یا امیدوار نہ تھا

بیخود دہلوی

;

اب اس سے کیا تمہیں تھا یا امیدوار نہ تھا
تمہارے وصل کا تم سے تو خواست گار نہ تھا

شراب پیتے ہی وہ کھل گئے وہ کھل کھیلے
شب وصال میں کچھ لطف انتظار نہ تھا

نہ جھپکی جب شب وعدہ پلک تو ہم سمجھے
یہ کوئی اور بلا تھی یہ انتظار نہ تھا

وہ تیر آپ کے ترکش میں کون سا نکلا
جو بے چلے بھی ہمارے جگر کے پار نہ تھا

وہ مر گیا ہے تو کیا ہے ہمیں بھی مرنا ہے
خدا گواہ ہے بیخودؔ وہ شراب خوار نہ تھا