جو اب جہان برہنہ کا استعارہ ہوا
میں زندگی ترا اک پیرہن اتارا ہوا
سیاہ خون ٹپکتا ہے لمحے لمحے سے
نہ جانے رات پہ شب خوں ہے کس نے مارا ہوا
جکڑ کے سانسوں میں تشہیر ہو رہی ہے مری
میں ایک قید سپاہی ہوں جنگ ہارا ہوا
پھر اس کے بعد وہ آنسو اتر گیا دل میں
ذرا سی دیر کو آنکھوں میں اک شرارہ ہوا
خدا کا شکر مری تشنگی پلٹ آئی
چلی گئی تھی سمندر کا جب اشارہ ہوا
امیر امام مبارک ہو فتح عشق تمہیں
یہ درد مال غنیمت ہے سب تمہارا ہوا
غزل
اب اس جہان برہنہ کا استعارہ ہوا
امیر امام