اب علاج دل بیمار سحر ہو کہ نہ ہو
زندگی سایۂ گیسو میں بسر ہو کہ نہ ہو
مجھ کو رکھنا ہی تھا آداب محبت کا خیال
میرے شانے پہ کل اس شوخ کا سر ہو کہ نہ ہو
آج ہر بات مری قول خداوندی ہے
کل مری بات پہ یوں جنبش سر ہو کہ نہ ہو
جانے کس موڑ پہ لے آئی مجھے عمر رواں
سوچتا ہوں یہ تری راہ گزر ہو کہ نہ ہو
کیوں نہ جی بھر کے اب اشکوں سے چراغاں کر لوں
یوں کوئی رات پھر آنکھوں میں بسر ہو کہ نہ ہو
سائے میں جن کے اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان چراغوں کو بجھا دوں گا سحر ہو کہ نہ ہو
میرے غم خانے میں آتے ہوئے امید کی ضو
پوچھتی ہے کہ ادھر میرا گزر ہو کہ نہ ہو
آج جو کہنا ہو اے حسن خود آرا کہہ لے
کل تری بزم میں اقبالؔ عمر ہو کہ نہ ہو
غزل
اب علاج دل بیمار سحر ہو کہ نہ ہو
اقبال عمر