اب حقیقت لگ رہا ہے میرا افسانہ مجھے
ساری دنیا کہہ رہی ہے تیرا دیوانہ مجھے
میں اٹھا تو کون ہونٹوں سے لگائے گا انہیں
مدتوں ڈھونڈا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
یہ محبت کا اثر ہے یا مرا دیوانہ پن
صحن گلشن سا نظر آتا ہے ویرانہ مجھے
اے اداسی کون سی منزل پہ لے آئی ہے تو
اپنا چہرہ بھی نظر آتا ہے بیگانہ مجھے
ٹوٹے پیمانے شکستہ جام اور تنہائیاں
اپنے گھر جیسا ہی اب لگتا ہے مے خانہ مجھے
جیتے جی ارمان یہ ساحلؔ نہ پورا ہو سکا
مر کے شاید ہی میسر ہو ترا شانہ مجھے
غزل
اب حقیقت لگ رہا ہے میرا افسانہ مجھے
محمد علی ساحل