اب گھٹائیں سیاہ ہلکی ہیں
رات شاید یہ کھل کے برسی ہیں
آپ سادہ لباس میں بھی مجھے
حد سے زیادہ حسین لگتی ہیں
دل مرا خانقاہ ہو گویا
دھڑکنیں تیرا نام جپتی ہیں
ایک مدت ہوئی نہیں رویا
میری پلکیں ہنوز بھیگی ہیں
بے وفائی کی یہ ادائیں سبھی
آپ ہی سے تو ہم نے سیکھی ہیں
اب یہ چھٹتے نظر نہیں آتے
ابر جو بستیوں پہ طاری ہیں
اب سنبھلتے خیالؔ صاحب آپ
بچپنے کی حدیں بھی ہوتی ہیں

غزل
اب گھٹائیں سیاہ ہلکی ہیں
پریہ درشی ٹھا کرخیال