EN हिंदी
اب فراق و وصال بار ہوئے | شیح شیری
ab firaq-o-visal bar hue

غزل

اب فراق و وصال بار ہوئے

جعفر عباس

;

اب فراق و وصال بار ہوئے
عمر گزری ہے بے قرار ہوئے

اس کی بے اعتباریوں کے طفیل
کتنے ہی گل یہاں پہ خار ہوئے

خواب دو ایک ہی بچے زندہ
قتل باقی تو بے شمار ہوئے

کیوں رہا غیریت کا سا احساس
جب بھی ہم اس سے کم کنار ہوئے

میرے اس کے معاملے اب تو
سارے عالم پہ آشکار ہوئے

کچھ نئی یہ ملامتیں تو نہیں
ایسے طعنے تو بار بار ہوئے

جرم کیا ہے پتہ نہیں اب تک
ہاں مگر روز سنگسار ہوئے

کتنے ہی طرحدار ہم جیسے
اس خرابے میں خاکسار ہوئے

کس قدر مبتلا تھے ہم خود میں
خود سے نکلے تو بے کنار ہوئے

میرؔ و غالبؔ کی خاک پا کے طفیل
ہم بھی کس درجہ آب دار ہوئے