EN हिंदी
اب ایک درد بھی دل میں نظر نہیں آتا | شیح شیری
ab ek dard bhi dil mein nazar nahin aata

غزل

اب ایک درد بھی دل میں نظر نہیں آتا

صفی اورنگ آبادی

;

اب ایک درد بھی دل میں نظر نہیں آتا
کسی کے کام کوئی عمر بھر نہیں آتا

یہ دل بھی دوست فراموش کم نہیں تجھ سے
کہ مدتوں نہیں آتا جدھر نہیں آتا

نہ سوئیں دن کو وہ راتوں کو جاگتے ہیں ضرور
نہیں تو آنکھ میں اتنا اثر نہیں آتا

انہیں کی بات ہیں جو میں نے یاد کر لی ہیں
مگر وہ ان کی زباں کا اثر نہیں آتا

مراقبے میں ہے کیا کیا مشاہدہ اے شیخ
بغیر اس کے نظر میں اثر نہیں آتا

عدم کے نام سے ہر ایک کیوں رہے بشاش
ہر ایک شخص کو لطف سفر نہیں آتا

علاج اور مرض میں نہ تھی کوئی نسبت
ہمارے سامنے اب چارہ گر نہیں آتا

گھٹی ہی جاتی ہیں ہر روز قوتیں دل کی
میں اس کے صدقے جو ارمان بر نہیں آتا

دعا کے ڈھنگ ہی احباب کو نہیں آتے
غلط ہے یہ کہ دعا میں اثر نہیں آتا

وہ درد مول کہ ہو رات دن کی نیند حرام
تو دیکھ آہ میں کیسا اثر نہیں آتا

اسی نے کہہ دیا اچھا ہوا کہ وہ کیا ہے
مری سمجھ میں تو یہ عمر بھر نہیں آتا

صفیؔ کو شاعری آتی ہے وہ بھی کچھ یوں ہی
اسے بس اور تو کوئی ہنر نہیں آتا