EN हिंदी
اب دماغ و دل میں وہ قوت نہیں وہ دل نہیں | شیح شیری
ab dimagh-o-dil mein wo quwwat nahin wo dil nahin

غزل

اب دماغ و دل میں وہ قوت نہیں وہ دل نہیں

مہراج سرکشن پرشاد شاد

;

اب دماغ و دل میں وہ قوت نہیں وہ دل نہیں
شادؔ اب اشعار میرے در خور محفل نہیں

تو مرے اشک ندامت کی حقیقت کچھ نہ پوچھ
اس کا ہر قطرہ وہ دریا ہے جہاں ساحل نہیں

گھر خدا کا تھا مگر بت اس میں آ کر بس گئے
اب مرقع ہے حسینوں کا ہمارا دل نہیں

نکتہ چیں ہو میری رندانہ روش پر کیوں کوئی
میں کوئی زاہد نہیں واعظ نہیں عاقل نہیں

پردہ داری کرتی ہے در پردہ لیلیٰ عشق کی
جذبۂ دل قیس کا ہے پردۂ محمل نہیں

انقلاب‌ دہر سے الٹا زمانے کا ورق
اہل محمل وہ نہیں وہ رونق محفل نہیں

ہند میں چلنے لگی ہے اب ہوائے انقلاب
شادؔ سچ ہے یہ جگہ رہنے کے اب قابل نہیں

ساغر مے پیش کر کے شیخ کہلاتا ہوں میں
ہدیۂ احقر ہے یہ گو آپ کے قابل نہیں

حق میں اب عاشق کے دیکھیں فیصلہ ہوتا ہے کیا
عشق کا دعویٰ حضور حسن تو باطل نہیں