اب بھی پل پل جی دکھتا ہے
جیسے سب کچھ ابھی ہوا ہے
کبھی نہ پھر ملنا ہو جیسے
آج وہ مجھ سے یوں بچھڑا ہے
بادل تو کھل کر برسا تھا
پھر بھی سارا دن جلتا ہے
ہم بھی کبھی خوش ہو لیتے تھے
آج اچانک یاد آیا ہے
ساون ہو پت جھڑ ہو کہ گل رت
دل ہر موسم میں تنہا ہے
بدن بدن خوشبو پھیلی ہے
گھونگھٹ گھونگھٹ پھول کھلا ہے
میں ہوں مور گھنے جنگل کا
تو کالی گھنگھور گھٹا ہے
میں اک دکھ سے بھری کہانی
تو میٹھا سندر سپنا ہے
پاشیؔ کس کی مدح میں تم نے
آج اتنا کچھ کہہ ڈالا ہے

غزل
اب بھی پل پل جی دکھتا ہے
کمار پاشی