اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں
مجھے بتوں سے اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے
بہت حسین ہے دنیا اسے خراب کروں
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بحروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں
میں کروٹوں کے نئے ذائقے لکھوں شب بھر
یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
غزل
اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
راحتؔ اندوری