اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا
محض اسیروں کی محصور زندگانی کیا
رتیں جو تو نے اتاری ہیں خوب ہوں گی مگر
ببول سیج پہ سجتی ہے گل فشانی کیا
ہے جسم ایک تضادات کے کئی خانے
کرے گا پر انہیں اک رنگ آسمانی کیا
ہزار کروٹیں جھنکار ہی سناتی ہیں
یوں جھٹپٹانے سے زنجیر ہوگی پانی کیا
زمیں کے اور تقاضے فلک کچھ اور کہے
قلم بھی چپ ہے کہ اب موڑ لے کہانی کیا
انا تو قید کی تشہیر سے گریزاں تھی
پکار اٹھی مگر میری بے زبانی کیا
میں خشک نخل سی جنگل طویل تیز ہوا
بکھیر دے گی مجھے بھی یہ بے مکانی کیا
غزل
اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا
عذرا پروین