EN हिंदी
اب اپنے دیس کی آب و ہوا ہم کو نہیں بھاتی | شیح شیری
ab apne des ki aab-o-hawa hum ko nahin bhati

غزل

اب اپنے دیس کی آب و ہوا ہم کو نہیں بھاتی

جامی ردولوی

;

اب اپنے دیس کی آب و ہوا ہم کو نہیں بھاتی
غلامی ایک ذلت تھی سراپا درد آزادی

قیادت کرنے والوں کو مسیحائی کا دعویٰ تھا
کسی نے لیکن اب تک قوم کی بیڑی نہیں کاٹی

ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

انہیں اقوام کے رحم و کرم پر اب بھی جیتے ہیں
غرور حریت نے جن سے حاصل کی تھی آزادی

بجائے فکر نو رجعت پسندی عام شیوہ ہے
حقیقت میں مسلماں ہر جگہ ہے کشتۂ ماضی

کراچی میں مہاجر اور انگلستان میں کالے
تری تقدیر میں جامیؔ لکھی ہے خانہ بربادی