EN हिंदी
اب ایسی ویسی محبت کو کیا سنبھالوں میں | شیح شیری
ab aisi waisi mohabbat ko kya sambhaalun main

غزل

اب ایسی ویسی محبت کو کیا سنبھالوں میں

نعمان شوق

;

اب ایسی ویسی محبت کو کیا سنبھالوں میں
یہ خار و خس کا بدن پھونک ہی نہ ڈالوں میں

گر ایک دل سے نہیں بھرتا میرے یار کا دل
تو اک بدن میں بھلا کتنے سانپ پالوں میں

نہ قبر کی ہے جگہ شہر میں نہ مسجد کی
بتاؤ روح کے کانٹے کہاں نکالوں میں

صداقتوں پہ برا وقت آنے والا ہے
اب اس کے کانپتے ہاتھوں سے آئینہ لوں میں

کئی زمانے مرا انتظار کرتے ہیں
زمیں رکے تو کوئی راستا نکالوں میں

میں آنکھ کھول کے چلنے کی لت نہ چھوڑ سکا
نہیں تو ایک نہ اک روز خود کو پا لوں میں

ہزار زخم ملے ہیں مگر نہیں ملتا
وہ ایک سنگ جسے آئنہ بنا لوں میں

سنو میں ہجر میں قائل نہیں ہوں رونے کا
کہو تو جشن یہ اپنی طرح منا لوں میں