EN हिंदी
اب ایسی باتیں کوئی کرے جو سب کے من کو لبھا جائیں | شیح شیری
ab aisi baaten koi kare jo sab ke man ko lubha jaen

غزل

اب ایسی باتیں کوئی کرے جو سب کے من کو لبھا جائیں

سالک لکھنوی

;

اب ایسی باتیں کوئی کرے جو سب کے من کو لبھا جائیں
کوئی تو ایسا گیت چھڑے وہ جس کو سنیں اور آ جائیں

بے تال ہے کیسی یہ سرگم بے لہرا پنجم ہے مدھم
جو راگ ہے دیپک اس من میں اس راگ کو کیسے گا جائیں

اب چلنا ہے تو چلنا ہے کیا پاؤں کے چھالوں کو دیکھیں
اس دھرتی کی پگ ڈنڈی سے کوئی ٹھکانا پا جائیں

یہ میرا لہو وہ تیرا لہو یہ میرا گھر وہ تیرا ہے
جو آگ لگی ہے دونوں میں اب جاتے جاتے بجھا جائیں

یہ ڈھیر نہیں ہے مٹی کا اک سالکؔ تھک کر سویا ہے
کچھ اوس گرا دو پلکوں سے کچھ پھول یہاں لہرا جائیں