اب اگر اور چپ رہوں گا میں
پھر یہ طے ہے کہ پھٹ پڑوں گا میں
ایک ایسا بھی وقت آئے گا
تم سنو گے فقط کہوں گا میں
ناز اٹھاؤں گا ناز اٹھانے تک
تیرے آگے نہیں بچھوں گا میں
دیکھنا تیری رہبری کے بغیر
اپنی منزل تلاش لوں گا میں
تم کو جانا ہے شوق سے جاؤ
اب خوشامد نہیں کروں گا میں
جب کبھی تجھ سے سامنا ہوگا
اجنبی کی طرح ملوں گا میں
کیا سبب ہے مری خموشی کا
شور تھمنے دو پھر کہوں گا میں
آئنہ رکھ کے سامنے نایابؔ
پاگلوں کی طرح ہنسوں گا میں

غزل
اب اگر اور چپ رہوں گا میں
جہانگیر نایاب