EN हिंदी
اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی | شیح شیری
ab aankh bhi mashshaq hui zer-o-zabar ki

غزل

اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی

عذرا پروین

;

اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی
خواہش تو تری گھاٹ کی رہ پائی نہ گھر کی

رنگ اپنے جو تھے بھر بھی کہاں پائے کبھی ہم
ہم نے تو سدا رد عمل میں ہی بسر کی

جب صرف ترے گل میں مرا حصہ نظر ہے
پھر سوچ ہے کیا درد یہ تاخیر نظر کی

یہ کوفے کی گلیاں ہیں کہ یہ میری رگیں بھی
ہر سمت سے چبھتی ہے انی مجھ کو شمر کی