EN हिंदी
اب آفتاب منور پہ قرب شام ہوا | شیح شیری
ab aaftab-e-munawwar pe qurb-e-sham hua

غزل

اب آفتاب منور پہ قرب شام ہوا

شفیق عباس

;

اب آفتاب منور پہ قرب شام ہوا
اک اور سال مری عمر کا تمام ہوا

رگوں میں گردش خوں کا غلام ٹھہرا ہے
نہ اس بدن کا کبھی مجھ سے احترام ہوا

مرے چہار طرف ہے حصار محرومی
تمام عمر کٹی اور نہ کوئی کام ہوا

کوئی زمین نہ دلدل نہ آسمان ہے اب
کہاں پہنچ کے مری رہ کا اختتام ہوا

عجب لطیف سی تیزابیت تھی لہجے میں
بڑے خلوص سے جس دم وہ ہم کلام ہوا

سنا ہے رات فرشتے چھپے تھے معبد میں
ہمارے شہر میں پھر آج قتل عام ہوا

ہزار قتل کے بدلے میں یہ سعادت ہے
کہ ایک شخص کسی قوم کا امام ہوا